رو کے کچھ بھی اکھاڑ نا

رو کے کچھ بھی اکھاڑ نا پائے
ہنس رہے ہیں یہ کیا کِیا ہم نے
جب بہت تھک کے سو گئے تھے ہم
پھر نصیبوں نے در پہ دستک دی
اب کہ بستی کا المیہ یہ ہے
خواب کم، لوگ زیادہ رہتے ہیں
دیکھو ناراض یوں نہیں ہوتے
ایسا کرنے سے کچھ نہیں ملتا
پھر سے لے کر اُداس چہرے کو
خوامخواہ عید لوٹ کر آئی
ہم سے یوں دور جا کے، بولو ناں
کون سا انتقام لینا تھا؟
جانے کیا کر رہے ہیں تیرے بعد
نا ہی روتے ہیں نا ہی ہنستے ہیں
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *