رُتِ مضمحل کی اساس میں

رُتِ مضمحل کی اساس میں نہ ملا کرو
میں ہوں تشنہ خود، مجھے پیاس میں نہ ملا کرو
مرے دل پہ پہلے ہی کتنے صدموں کا بوجھ ہے
مجھے تم تو شامِ اداس میں نہ ملا کرو
کبھی اب یقین کی منزلوں پہ ملو ذرا
مجھے تم گماں و قیاس میں نہ ملا کرو
مجھےبکھرے بکھرے سے بال یوں بھی پسند ہیں
مجھے ماتمی سے لباس میں نہ ملا کرو
یہ جو غم کو مجھ سے لگاوٹیں ہیں مُدام ہیں
مگر آپ حالتِ یاس میں نہ ملا کرو
کہیں تجھ سے مل کے یہ زخم پھر سے نہ کھِل اٹھیں
مجھے شہرِ درد شناس میں نہ ملا کرو
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *