یوں خدا کے لہجے میں بات کرنے سے باز آ
ترے ہونٹ ہلنے سے جان پڑتی ہے جسم میں
تری بات روح میں بیٹھ جاتی ہے دور تک
کوئی پاس بھی تو نہیں ہے اور ترے سوا
جسے اپنے غم کی کہانیاں میں سنا سکوں
میں سنوں میں خود کو بھُلا کے تجھ کو سنوں ابھی
ترے لب پہ کوئی بھی بات ہو تو سہی مگر
کوئی رات شام کی بات بھی نہیں سن رہی
مری آرزو مجھے تُو ہی کوئی جواب دے
زین شکیل