دھڑکنوں کا سینے میں کب

دھڑکنوں کا سینے میں کب سے بین جاری ہے، کتنی سوگواری ہے!
غم کی سسکیاں لے کر بے کلی پکاری ہے، کتنی سوگواری ہے!
جب بھی وہ ملے مجھ سے حال چال کے بدلے پوچھتا ہے بس اتنا
یار یہ بتاؤ تم، کتنی بےقراری ہے؟ کتنی سوگواری ہے؟
اک ملنگ نے مجھ سے یہ کہا کہ لوگوں میں آیا جایا کر پاگل!
ساتھ ساتھ رکھا کر، یہ جو دنیا داری ہے، کتنی سوگواری ہے!
کوئی کیسے سمجھے گا کس طرح گزرتے ہیں رات دن اذیت میں
زینتِ مقدر ہے، جتنی آہ و زاری ہے، کتنی سوگواری ہے!
شام ہے، اداسی ہے، روح بھی تو پیاسی ہے، بات گو ذرا سی ہے
کس طرح کہوں کیسے میں نے شب گزاری ہے، کتنی سوگواری ہے
میں تو خود پریشاں ہوں جو بھی ہو گیا رخصت لوٹ کر نہیں آیا
اک مرا اکیلا پن اور ہجر جاری ہے، کتنی سوگواری ہے!
میرے پاس آنے سے ہاتھ بھی ملانے سے ڈر رہے تھے سارے لوگ
روح کے بہت اندر، ہم نے خود اتاری ہے، کتنی سوگواری ہے!
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *