دلِ ویراں میں تیرا درد

دلِ ویراں میں تیرا درد ہی مہمان، کافی تھا
ہمیں بس اِک ترا ہجرِ بلائے جان کافی تھا
تجھے بالوں کو لہرانے کی ایسی کیا ضرورت تھی
میں جتنا ہو چکا تھا اُس قدر حیران کافی تھا
کرم کچھ حد سے زیادہ مجھ پہ تُو نے کر دیا لیکن
تجھے یہ زین یوں بھی بے سروسامان کافی تھا
کسی انجان غم میں رو پڑا تھا وہ مرے آگے
مرے برباد ہونے کو یہی نقصان کافی تھا
بچھڑتے وقت کچھ بھی نا سہی دو لفظ دے جاتے
کوئی امید کافی تھی، کوئی پیمان کافی تھا
اُسی کے نقش ذہن و دل سے مٹ پائے نہیں اب تک
کہ جس کو بھولنے کا مرحلہ آسان کافی تھا
بلا کی دیر کر دی لوٹنے میں بس اِسی خاطر
ہمارے گھر کے رستے سے کوئی انجان کافی تھا
یہ تم جو آ گئے تو اِس کا منہ ماتھا نکل آیا
وگرنہ تم سے پہلے گھر مِرا ویران کافی تھا
جدا ہونے سے بہتر تھا، جفا کرتے، خفا کرتے
تمہارا زین کے سر پر یہی احسان کافی تھا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *