میرے کچھ تو لگتے ہیں
شکل میں تمہارے دکھ
مجھ سے کافی ملتے ہیں
اُس کے نرم پیروں کو
راستے ترستے ہیں
تم ہنسی نہ گم کرنا
جلنے والے جلتے ہیں
اپنا لہجہ دیکھا ہے؟
ایسے بات کرتے ہیں؟
آپ کی نہیں غلطی
آپ تو فرشتے ہیں
کون پوچھے آنکھوں سے
اس طرح برستے ہیں؟
خود منانے والے لوگ
روٹھ بھی تو سکتے ہیں
اب پرانی باتوں پر
ہم بھی کھل کے ہنستے ہیں
اب تو غیر لوگوں سے
ان کا ذکر سنتے ہیں
تم رُکے تو یہ جانا
راستے بھی رُکتے ہیں
تم سمیٹتے ہو ناں
اِس لیے بکھرتے ہیں
کاش ہم سے وہ پوچھے
“کس سے پیار کرتے ہیں؟”
کیا عجب ہیں خوف اُن کے
پیار سے بھی ڈرتے ہیں
ہاتھ چھوڑنے والے
ہاتھ کیوں پکڑتے ہیں؟
ہم اتر گئے دل سے؟
ٹھیک ہے بچھڑتے ہیں
سب سے ہنس کے ملتے ہیں
روز چھپ کے روتے ہیں
زین آپ جیسے لوگ
بس اداس رہتے ہیں
زین شکیل