دل سے نکلی ہے یہ صدا

دل سے نکلی ہے یہ صدا، مرشد
تیرا لیتا ہوں نام یا مرشد
بے کلی پل رہی ہے سینے میں
ہاتھ دل پر ذرا لگا، مرشد
کیوں فضائیں ہیں پُر فریب اتنی
کیوں ہے خوشبو میں اب وَبا ،مرشد؟
توشہِ عاقبت ملے مجھ کو
ایسی دے دے کوئی دعا، مرشد
تہنیت غم نے دی گلے لگ کر
یہ معمّہ عجیب تھا ،مرشد
جاگتی جوت ہے ترا چہرا
رُخ سے کاکُل ذرا ہٹا، مرشد
عمر بھر کو تمہارے پہلو میں
چاہیے اک ذرا سی جا، مرشد
سامنا ہے مجھے رذالت کا
ہو کرم کی ذرا نگہ، مرشد
آپ کے نام زندگی کر دی
اور کرتے بھی ہم تو کیا، مرشد؟
کوئی ، آنسو بھی پڑھنے والا ہو
ہم بھی روئے ہیں بے صدا ،مرشد
یوں لگا عالمِ نزع تھا وہ
ہو رہا تھا کوئی جدا، مرشد
ہم نے قصداً نہیں کیا کچھ بھی
ہم سے ہونا نہیں خفا، مرشد
اس طرح منہ تو پھیر کے مت جا
میری جتنی ہے، دے سزا، مرشد
سانس بھی ساتھ چھوڑ جائے گی
زندگی کیوں ہے بے وفا، مرشد
بخش دے اب تمام تقصیریں
مان بردوں کی التجا ، مرشد
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *