دردِ الفت کی جاودانی

دردِ الفت کی جاودانی تھی
حوصلے کی عجب کہانی تھی
میں کہیں سے نیا نہیں لگتا
میری تصویر بھی پرانی تھی
اب اُسی کی تلاش میں گم ہوں
ایک لڑکی مری دیوانی تھی
یہ جو مسکان کھو گئی مجھ سے
ضبط کی آخری نشانی تھی
لوٹ آیا تو اس سے کیا کہتے
جس کے چہرے پہ بدگمانی تھی
اب تو جذبوں پہ ضعف طاری ہے
پہلے کب زور میں جوانی تھی
وہ کبھی مجھ سے مل نہیں پایا
یہ مرے بخت کی گرانی تھی
اُس کا چرچہ ہے شہر والوں میں
میں نے اک بات جو چھپانی تھی
ہجر میں اور کچھ نہ تھا یارو
میری آنکھوں کی رائیگانی تھی
ایک مدت کے بعد یاد آئی
زینؔ یاری بہت پرانی تھی
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *