ہمارے لب پہ تو یوں بھی کوئی دعا ہی نہیں
ہمیں تو ایک اسی کی طلب نہیں جاتی
کہ جسکا ایک محبت پہ اکتفا ہی نہیں
ابھی یہ لوگ مگن ہیں حروف تولنے میں
ابھی تو شہر نے لہجہ مرا سنا ہی نہیں
مجھے تو یوں بھی مری جان سے عزیز ہو تم
یہ بات الگ ہے کوئی تم سا دلبربا ہی نہیں
بس ایک چھوٹا سا آنگن، تمہاری یاد اور میں
مرے مکاں میں اداسی کی انتہا ہی نہیں
بچھڑ کے مجھ سے وہ شاید بہت اداس رہے
کبھی میں پہلے اسے چھوڑ کر گیا ہی نہیں
جو چاہتا ہے کہ بس اس کی دسترس میں رہوں
اسی کے لب پہ مرے نام کی صدا ہی نہیں
اُسے اب اپنے ہی ہاتھوں گنوا کے سوچتے ہیں
ہمارا اُس کے علاوہ تو کوئی تھا ہی نہیں
زین شکیل