کیا پایا کیا کھویا، سارا لکھتا میں
تجھ جیسا جب کوئی اور نہیں ہے تو
کیوں پھر اور کسی کو پیارا لکھتا میں
کیسے اپنے درد بھلا کر لوٹ آیا
تو نے جیسے مجھے پکارا، لکھتا میں
میں نے دُکھ نظموں میں لکھنا چھوڑ دیے
اُس کو تھا پر یہی گوارا، لکھتا میں
پہلے کہہ دیتے گر کھیل سمجھنا تھا
جا تُو جیتا، جا میں ہارا، لکھتا میں
لکھتا رہتا صبح و شام تِری باتیں
جی نہ بھرتا پھر دوبارہ لکھتا میں
دکھ بھی آخر اپنے ہی تو ہوتے ہیں
کاش کہ خود کو صرف تمہارا لکھتا میں
زین شکیل