رات کے غلافوں میں
خواب تم نہیں رکھنا
چاند سے نہیں کہنا کچھ ہمارے بارے میں
چغلیاں ستاروں کے بس میں ہیں تو کرنے دو
خاموشی کی چادر کو سر پہ تان کر تنہا
شاعری پڑھا کرنا۔۔۔
شاعری بھی میری ہو
اور آئینے جیسی
جس کو تم جہاں سے بھی،
پڑھ کے دیکھ لو تو بس
خود کو تم نظر آؤ۔۔۔۔
بادلوں کے بارے میں سوچنا نہیں زیادہ
ساونوں کی مجبوری تم سمجھ نہ پاؤ گی
آنکھ کا کوئی کونہ، خشک رہ نہ پائے گا
خوشبوؤں کا صدیوں سے رابطہ جو قائم ہے
توڑ ہی نہیں دینا
ایک راستے پر تم، ایک راستے پر ہم
چل پڑے ہیں جو اک ساتھ،
ہاتھ چھوٹ بھی جائیں، ٹوٹ بس نہیں جانا
جس قدر بھی یاد آئیں، چاہتوں کے کچھ لمحے
خود میں دفن کر لینا
خامشی کی سن لینا
خامشی سے کہہ لینا
چاند سے نہیں کہنا۔۔۔۔
رات کے غلافوں میں خواب رکھنے والوں کو
راستے نہیں ملتے۔۔۔۔
خوشبوؤں کے آپس میں
رابطے نہیں رہتے
کچھ بھی تو نہیں بچتا
یاد درد دیتی ہے۔۔۔۔۔
زین شکیل