چار سو پھیلتا جا رہا ہے

چار سو پھیلتا جا رہا ہے سفر، کیا کہوں اب تمہیں
چاند کھڑکی سے آتا نہیں اب نظر، کیا کہوں اب تمہیں
اس نے پوچھا کہ کل شام کیسی اداسی تھی چھائی ہوئی
کل ہوا جب تمہارے شہر سے گزر، کیا کہوں اب تمہیں
جس نے ہاتھوں میں ہاتھوں کو دے کر ہماری اٹھائی قسم
سانحہ یہ ہوا کہ گیا وہ مُکر، کیا کہوں اب تمہیں
اب درختوں کے پتوں کی زردی پہ کیوں کالے بختوں کا غم
کس لئے ہو گئی شاخ بھی دربدر، کیا کہوں اب تمہیں
رات ایسی کہ جیسے ہو دن کی وہ مجبور بیوہ کوئی
دن پہ جیسے لگی ہو غموں کی مُہر، کیا کہوں اب تمہیں
اس نےمجھ سے یہ پوچھا کہ مجھ سے محبت تو ہے نا تمہیں
میں نے اس سے کہا کہ مِرے ہم سفر، کیا کہوں اب تمہیں
تم وہی تھے ،مرے سنگ دنیا سے ڈرتے، جھجھکتے نہ تھے
پھر اچانک گئے ساری دنیا سے ڈر، کیا کہوں اب تمہیں
یہ زمانہ مرے پاس آیا تو تھا، صرف جلدی میں تھا
میں نے بھی کہہ دیا، جاؤ پہلے گزر، کیا کہوں اب تمہیں
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *