چار سو ہے فشار سانسوں

چار سو ہے فشار سانسوں کا
کب رہا اعتبار سانسوں کا
کٹ گئی ہجر کی اذیت بھی
رہ گیا انتظار سانسوں کا
منتظر ہے رفو گری کے لیے
دامنِ تار تار سانسوں کا
کون روتا ہے دھت اندھیروں میں
کون ہے بے قرار سانسوں کا
عمر گزری ترے خیالوں میں
کب کیا ہے شمار سانسوں کا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *