یاد آنے والے بولو کیا میں تم کو یاد آتا ہوں؟
وہ آئے تو سنتا رہتا ہوں اس کی باتیں چپ چاپ
وہ جائے تو پہروں اس کی باتوں کو دہراتا ہوں
وہ بن سوچے سمجھے مجھ کو کیا سے کیا کر دیتا ہے
میری معصومیت دیکھو کیا سے کیا ہو جاتا ہوں
دیکھو! میری بات سنو ناں! ایسے تو مت دور رہو
آ جاؤ! جیسا بولو گے، میں ویسا بن جاتا ہوں
جانے، دنیا والے مجھ کو کن لفظوں میں یاد رکھیں
اب تو تم کچھ بھی کہتے ہو، میں “کچھ بھی” کہلاتا ہوں
او لوگوں میں رہنے والے تم اِس کو ڈر کہتے ہو
میری عادت ہی ایسی ہے لوگوں سے گھبراتا ہوں
زین شکیل