زندگی کے کئی اوراق ابھی خالی ہیں
اور جو لکھے گئے ان کا مطالعہ بھی کہاں آساں ہے
چند بچھڑے ہوئے لوگوں کی کئی رُودادیں
کتنے صفحوں پہ رقم ہیں مگر اب دیکھیں تو
کتنے اشکوں کے کئی دھبے پڑے ہیں ان پر
جو مٹائے ہوئے ہیں ان کو کئی جگہوں سے
زندگی سوہلا بھی تو نہیں کوئی کہ جسے
مطربِ چین بھی باسوز صدا میں گائے
کتنے اوراق پہ بے چینی بڑی واضح ہے
ساتھ ہی صبر و رضا کے کئی نقطے ہیں،
جو پھیلے ہیں مقدر کی سیاہی سے کئی صفحوں پر
(صبر ہر چیز کا حل بھی تو نہیں ہوتا مگر
عارضی طور پہ مضبوط کیے رکھتا ہے)
شکر کا باب علیحدہ سے لکھا ہے ان میں
وقت، صفحات کی گنتی کا کوئی نام بھی ہو سکتا ہے
آرزو کیسی بھی ہوتی ہو حسیں ہوتی ہے
چاہے اس بیتی ہوئی عمر کے صفحات حسیں ہوں جتنے
چاہے رنگینیاں کتنی ہوں کہیں لکھی ہوئی
اک نظر دیکھنا پھر بھی انہیں آسان نہیں
ان گزرتے ہوئے لمحات سے کوئی بھی گلہ کیا کرنا
زندگی کے کئی اوراق ابھی خالی ہیں
ہم محبت کے کسی تھال میں لائے ہیں دعائیں پھر سے
ہم نے پھولوں کی طرح ساری دعاؤں کو سلیقے سے سجا رکھا ہے
’’ہو جنم دن یہ مبارک‘‘
یہی ہم پھر سے تمہیں کہنے چلے آئے ہیں
زین شکیل