کافی ہوتا ہے ایک صدمہ بھی
پھر کسی کے لیے نہیں جیتا
جو بھی اک بار مر گیا تجھ پر
آخری باب لکھ دیا میں نے
ابتداؤں سے کچھ ذرا پہلے
تیری جانب نکل پڑا تھا میں
تھک گیا چین سے نہیں بیٹھا
آج بھی بے مراد لوٹ آئے
یہ مِرے خواب تیرے دَر جا کر
چاہے جیسی بھی ہے مگر دیکھو
ہے مری شاعری تمہارے نام
زین شکیل