تو کیا؟ کافی نہیں

تو کیا؟ کافی نہیں اتنا؟
چلو جو کچھ بھی تھا وہ سب
تمہارے اور میرے درمیاں ہی تھا
مگر کیسے فسانہ بن گئے جذبات، کیا معلوم!
اس میں گفتگو یوں بھی اضافی ہے
(برا مت مان جانا
غیر ارادی طور پر لکھی گئی
یہ بے سُری نظمیں
تمہارا کیا بگاڑیں گی؟)
تمہارے اور میرے درمیاں
ہر فاصلہ مرضی مطابق تو نہیں پھر بھی
برا لگتا نہیں ہے گر تو پھر شاید
جدائی راس آتی ہے (یہی مطلب نکلتا ہے)
تمہارے اور میرے درمیان کچھ بھی نہیں تو پھر
زمانہ کیوں ہمیں اک دوسرے سے برملا منسوب کرنے سے نہیں ڈرتا
سُنو تم مت پلٹ آنا
تمہارے اور میرے درمیاں کچھ نا بھی ہو پھر بھی
میں اب مٹی کے ڈھیلوں سے بنے کچے مکاں
ڈیھتے ہوئے دیکھوں یا نہ دیکھوں
حریمِ جان
تمہارے اور میرے درمیاں کچا سہی،
بےکار سا، مجبور سا وہ رابطہ جو تھا کبھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔اب تو نہیں لیکن
یہ کچھ تو ہے جو اب بھی
بس تمہارے اور میرے درمیاں باقی
ذرا سا بچ گیا ہے۔۔۔۔۔
غیر ارادی طور پہ لکھی گئی نظموں کے اے باعث
بھلے سارا زمانہ اس تعلق کی نہایت آبرو ریزی کرے
کچھ بھی کہے چاہے۔۔۔
تو کیا؟ کافی نہیں اتنا؟
کہ جو کچھ ہے
وہ اب بھی بس تمہارے اور میرے درمیاں ہی ہے۔۔۔
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *