اور ان میں ہم ہی نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں
تم اپنے ہونٹوں سے ہر گز ہنسی ہٹانا مت
جو ہم تمام حزیں ہیں تو کوئی بات نہیں
مکانِ دل میں سدا ہی قیام ہے اُن کا
مقیمِ عرشِ بریں ہیں تو کوئی بات نہیں
تُو یہ بھی دیکھ کہ افلاک چھان آتے ہیں
وہ لوگ خاک نشیں ہیں تو کوئی بات نہیں
سو ہم غضب کے اداکار ہیں، ہنسے تو سہی
جو درد دل میں مکیں ہیں تو کوئی بات نہیں
ہمیں بھی سطحِ زمیں چھوڑنی تو ہے اک دن
جو یار زیرِ زمیں ہیں تو کوئی بات نہیں
ہمیں تو خود بھی نہیں یاد، کون تھے ؟کیا تھے؟
تمہیں بھی یاد نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں
زین شکیل