یاد ہے اکثر تم کہتی تھیں
جب میں اپنی سانسوں کی
اور دھڑکن کی ترتیب لگاؤں
کتنا سادہ کتنا پیارا
نام تمہارا بن جاتا ہے
میں گھنٹوں سنتی رہتی ہوں
یاد ہے جب تم
میرے سینے پر سر رکھ کے
میری سانس سنا کرتیں
یا اپنا نام سنا کرتی تھیں
یاد ہے اک دن
’’سانوں اک پل چین نہ آوے‘‘
میری فرمائش پر تم نے
نصرت کا یہ گیت سنا تھا
اور گھنٹوں محسوس کیا تھا
(شاید مجھ کو)
یاد ہے تم کو جب تم کالے رنگ کے
کپڑے پہنا کرتیں، تو یہ کہتیں
دیکھو میں کچھ خاص نہیں ہوں
جانے کیوں تیری آنکھوں کو
میں اتنی سندر لگتی ہوں!
یہ تو تم کو یاد ہی ہو گا
جب تم مجھ سے یہ کہتیں تھیں
آپ کے جیسا کوئی نہیں ہے
آپ بہت ہی اچھے ہیں نا
ایسے منہ مت پھیرا کیجئے!
دیکھیں میں دل سے کہتی ہوں
مجھ سے چاہے اپنے سر کی
ایک نہیں، دو چار نہیں تو
جتنی چاہے قسمیں لیجے
میں یہ بالکل سچ کہتی ہوں
اب دوری نہ سہہ پاؤں گی
آپ سے دور نہ رہ پاؤں گی
مجھ کو چھوڑ کے مت جائیے گا
میری خاطر رُک جائیے گا
مجھ کو چاہے جیسے رکھیئے
آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے بس
اور کسی کا سایا بھی نہ
آنکھ کے پاس کبھی لاؤں گی
آپ سے دور نہ رہ پاؤں گی
یاد ہے مجھ سے جب کہتی تھیں
آپ بھی کتنے سادہ ہیں نا
اپنی عمر کے لڑکے دیکھیں
تھوڑا سا تو فیشن کیجئے
بالوں کا وہ ’کٹ‘ بنوائیں
کالر والی پرپل شرٹ میں
آپ کمال لگیں گے سچ میں
کتنی ساری باتیں تھیں ناں
تم کو تو سب یاد ہی ہوگا
پھر بھی مجھ کو یوں لگتا ہے
مجھ کو ٹھیک سے یاد نہیں ہے!
اک مدت جو بیت گئی ہے
میرے ہاں تو یہ عالم ہے
پہروں سوچوں
گھنٹوں تجھ کو یاد کروں تو
تب جا کر ہی
دھندلا دھندلا سا اک چہرہ
یاد آتا ہے ہلکا ہلکا
وہ بھی اتنی مشکل سے کہ
بیچ میں اتنے زخمی لمحے
درد جگانے آجاتے ہیں
ڈر جاتا ہوں
اور وہ دھندلا عکس بھی مجھ سے
کھو جاتا ہے!
جب سے قسمیں، وعدے سارے
بھول گئی ہو، تب سے جاناں
یوں لگتا ہے
سارے ہوش ہوئے لاوارث
ہر احساس کاخون ہوا ہے
میری سانسیں جن میں اکثر
اپنا نام سنا کرتیں تھیں
بے ترتیبی کے عالم میں
ساری سانسیں بکھر گئی ہیں
نصرت کا وہ گیت تو اب بھی
چین نہیں آنے دیتا ہے
کالے کپڑے جب دیکھوں تو
یوں لگتا ہے
جیسے اک بے نام محبت
یا شاید گمنام محبت
ہجر کا ماتم کرتے کرتے
گہرے سوگ میں ڈوب گئی ہے
میرے سر کی قسمیں ٹوٹیں
اور کسی کے سائے سے ڈرتے
میرا سایہ بھول گئی ہو
مجھ کو ایسے تیز ہوا میں
جلتے بجھتے اک بے چارے
دیپ کی مانند چھوڑ گئی ہو
دیکھو میں کتنا اچھا تھا
میرے جیسا کوئی نہیں تھا
تم کہتیں تھیں!
یاد ہی ہو گا!
پھر بھی رشتہ توڑ گئی ہو!
دیکھو عرصہ بیت گیا ہے
سارے فیشن بدل گئے ہیں
اب یہ بھی معلوم نہیں ہے
میں اب کیسے بال بناؤں؟
کیسے کیسے کپڑے پہنوں؟
بال بھی اب تو بکھر گئے ہیں
سارے کپڑے اُدھڑ گئے ہیں
تم کو تو سب بیتی باتیں
یاد ہی ہوں گی
مجھ کو ٹھیک سے یاد نہیں ہیں
مجھ کو تو اب ہجر زدہ دیوانوں جیسی
ٹھنڈی ٹھنڈی ،پُر اسرار سی
آہیں بھرنا آتی ہیں بس
کچھ لکھوں تو
درد قلم سے باہر آ کر
خود کاغذ پر گر جاتا ہے
تیری باتیں بھول گیا ہوں
غم مجھ سے باتیں کرتے ہیں
اب کوئی بھی قسم اُٹھائے
یوں لگتا ہے یہ جھوٹا ہے
جانے کیسے حال میں ہوں میں
خود بھی تو معلوم نہیں ہے
لیکن یہ سب تم کو جا کر کون بتائے
ہو سکتا ہے تم بھی سب کچھ بھول چکیں ہوں
یہ تو اک مفروضہ ہے نا
’’کہ سب تک کو یاد ہی ہوگا‘‘
لیکن جاناں میری جانب
بے خبری کا یہ عالم ہے
یادیں ساتھ نہیں دیتیں اب
باتیں یاد نہیں رہتیں!
زین شکیل