یاد کے سارے دریچے بھیگتے ہیں
بے بسی کرلا رہی ہے
راستوں پر پھیلتی جاتی اداسی بین کرتی اور
بڑی معدوم سی آواز میں کرلا رہی ہے
بے بسی خود بے حسی کے گیت گاتی جا رہی ہے
کھڑکیوں پر دھول بارش کے کئی قطرے لیے خود میں کبھی کی جم گئی ہے
اور شیشوں پر بنا ہر عکس دیتا ہے صدائیں
گھر کی بے ترتیبیاں ساری تمہیں واپس بلائے جا رہی ہیں
اور اس پر المیہ یہ ہے کہ مجھ کو
چائے
وہ بھی ایک ہی کپ،
خود بنانا پڑ رہی ہے!
زین شکیل