تجھے خود سے نکالا

تجھے خود سے نکالا ہے
تجھے محسوس کرنے کے لیے
میں نے ہزاروں کام چھوڑے ہیں
نہ جانے پھر بھی کیوں
مجھ کو لگا یہ سب خسارہ ہے
مجھے تیری محبت ڈھونگ لگتی ہے
ترے وعدے بھی لگتا ہے
کہ اک صدیوں پرانا خط
کسی شوکیس میں رکھا اُٹھاؤں
دھول مٹی صاف کر کے کھولنے بیٹھوں
لفافے سے نکالوں اور میرے ہاتھ لگنے سے
وہ کاغذ پھٹتا جاتا ہے
مکمل طور پر تو پھٹ کے چور و چور ہو جائے
سو اس سے قبل میں نے سب پرانے خط جلائے ہیں
ترے وعدے بھلائے ہیں
تجھے خود سے نکالا ہے!
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *