پھر ترا ہجر لگا سینے سے
پھر تری یاد کفن پہنے ہوئے لوٹ آئی
پھر کسی درد بھری سسکی نے تھپکی دے دی
پھر اذیت کی کوئی شال گری کاندھوں پر
پھر کسی پھول کی میت کو کہیں دفن کیا خوشبو نے
پھر یہ دل، مٹھی میں آیا ہوا دل رونے لگا
پھر تمہیں کیسے بتائیں کہ بہت درد ہوا۔۔۔۔
درد اتنا کہ ان اشکوں کے بھی آنسو نہیں تھمتے پل بھر
ہجر کی ذات بھی وسعت کو ہی ترجیح دیا کرتی ہے
تھام لیتی ہے مرا ہاتھ جدا ہوتی نہیں
دن خفا رہنے لگا رات خفا ہوتی نہیں
کون سی رات ہے جب آنکھ مری روتی نہیں
یہ تھکی ہاری ہوئی بد بختی
جاگ اٹھی ہے جو اب سوتی نہیں
جب ترا ہجر گلے لگتا ہے
تب یہ کہتا ہوں کہ
ہجرا !
ذرا آہستہ سے مل
دیکھ میںپہلے ہی ٹوٹا ہوں مجھے اور نہ توڑ
اس سے ملنے کے لیے کب سے سفر میں ہوں
کہ جس سے مل کر
میں نے اس ذات کو تکمیل عطا کرنی ہے
اور اسے ضبط کی تفصیل بھی بتلانی ہے
بس ذرا دھیرے سے مل اے ہجرا!
مت مجھے توڑ مجھے اس کی طرف جانا ہے
اس سے مل کر یہی اک بات بتانی ہے اسے
اور بتانی بھی ہے تفصیل کے ساتھ
اور پھر سسکیاں لیتے ہوئے رونا ہے،
اسے کہنا ہے!
پھر ترا ہجر لگا سینے سے
پھر یقیں جان بہت درد ہوا۔۔۔
زین شکیل