پھر ہو کے خفا ہم کو دل

پھر ہو کے خفا ہم کو دل آزار کرو گے؟ بیمار کرو گے؟
جو ہم کو بھلانے کی سعی یار کرو گے! بے کار کرو گے!
اس شہر میں اپنی تو کوئی جان نہیں ہے، پہچان نہیں ہے!
تم اور مِرے راستے پُر خار کرو گے؟ دشوار کرو گے؟
آئے ہو جو دل میں تو ٹھہر جاؤ مری جاں، رُک جاؤ مری جاں!
اب ضد جو پلٹ جانے کی ہر بار کرو گے! بیزار کرو گے!
لوٹ آئی تری یاد بھی بن کر کوئی دلہن، کرتی ہوئی چھن چھن
پائل کی مرے کان میں جنھکار کرو گے، یوں وار کرو گے؟
چُن چُن کے، اُٹھا خود کو جو، لائے ہیں ترے پاس، آئے ہیں ترے پاس
اب تم بھی کھڑی ہجر کی دیوار کرو گے؟ دُکھ دار کرو گے!
تم سب سے یہ کہتے ہو کہ جب زین نہیں تھا، بے چین نہیں تھے!
اب یوں مرے جذبات کا پرچار کرو گے؟ سنگسار کرو گے؟
لب پر مرے چاہت کا جو اظہار نہیں ہے! انکار نہیں ہے!
ہر روز محبت کا جو اظہار کرو گے، کیا پیار کرو گے!
کس شخص کی باتوں کو اڑاؤ گے ہنسی میں؟ جب میں نہیں ہونگا
پھر دوستو! کیسے مجھے بیدار کرو گے؟ کیا یار کرو گے؟
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *