ہو سکے گر تو ہمیں تم بھی بھلاتے جانا
اب یہ دروازہ کھلا دیکھ کے لوگ آئیں گے
تم ناں! جاتے ہوئے زنجیر لگاتے جانا
تم نہ سمجھو گے مگر یہ تو سمجھ جائیں گے
میری ہر بات پرندوں کو سناتے جانا
زندگی میں مجھے ناراض کیے رکھا ہے
میری میت کو ہی رو رو کے مناتے جانا
زین رُک رُک کے جو دیکھا بھی تو حاصل نا وصول
اب کسی موڑ پہ رُکنا نہیں! جاتے جانا!
زین شکیل