خدا کا خوف کھائیے ، نہ بد کسی کو بولیے
کوئی دلیل معتبر نہیں ہے عشق سامنے
محبتوں کی جھیل میں یوں زہر تو نہ گھولیے
اداس ہے نظر تو روح میں بھی اک فشار ہے
اجڑ چکے بہت ہمیں مزید تو نہ رولیے
ہے جسم و جاں کو ڈس رہا یہ سلسلہ سکوت کا
حضور آپ چپ کھڑے ہیں کیوں؟ لبوں کو کھولیے!
یہ کیا کہ رقصِ خامشی رہے ہمارے چار سُو
ذرا سماعتوں میں رَس محبتوں کے گھولیے
جو ڈس گئے، تو اب یہ اپنے آپ پر ملال ہے
کہ پالتے رہے تھے آستیں میں ہم سپولیے
دھیان اس کا اور ہی طرف تھا پھر بھی جانے کیوں
وہ مجھ سے کہہ رہی تھی، جی میں سن رہی ہوں بولیے
زین شکیل