پردیسیوں کے لیے ایک

پردیسیوں کے لیے
ایک اکیلی جان
پردیسی ہو بیٹھی جب سے لگتی ہے بے جان
ساون کی خوشبو
آنکھوں میں تو آ جاتے ہیں بن پوچھے آنسو
گڑیا بہت اداس
پردیسوں میں کب ملتا ہے اپنوں سا احساس
چاروں جانب سوگ
تنہا رہ کے لگ جاتے ہیں دل کو کتنے روگ
چوڑی کی کھنکھن
پی نہ ملنے آویں مجھ کو چین نہ پاوے من
لمبی کالی رات
کون کرے پردیسوں میں مجھ سے پیاروں کی بات
پھیکا پڑ گیا مکھ
پل پل آنگن یاد آ جاوے کوسوں دور ہے سکھ
پیارا اپنا دیس
ہم پردیس کو کیا کاٹیں ہم کو کاٹے پردیس
مولا! رکھنا شاد
پردیسوں میں رہ رہ آویں ماں اور بابا یاد
سنے نہ جاویں بین
رو رو نیر بہاویں آنکھیں پل نہ پاویں چین
سبز رُتیں لے آ
اللہ سائیں! اب تو مجھ کو اپنوں سے ملوا…
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *