بے کلی کا ستایا ہوا ایک

بے کلی کا ستایا ہوا ایک بیمار دل صندلیں
تیری راہوں میں رکھا ہوا ہے، اٹھا لے ، خدا کے لیے
تجھ سے ملنے کی خاطر چنا تھا کسی خواب کا راستہ
کون ڈاکو چلے آئے آنکھیں ہماری چُرا لے گئے
بھول جا کہ تجھے رنج ہو گا مجھے یاد کرتے ہوئے
یاد اپنے طریقے سے آئے گی پر اس کو آنے تو دے
وقت بے چارہ، مجبور، کنجوس، مہلت نہیں دے سکا
بیٹھنا تھا ابھی بات کرنی تھی ہم نے گھڑی دو گھڑی
ہم نے روتے ہوئے رات کاٹی تو پھر یاد آیا ہمیں
نصف شب میں تو کچھ دیر ہنسنا بھی تھا، کیا غضب ہو گیا
اس لیے کچھ تسلی سے کٹ ہی رہی ہے مری زندگی
جان پہچان اچھی بنا رکھی ہے تیرے ہر درد سے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *