بے بسی کے مارے ہم
وہ بولی
میں بہت مجبور تھی اور تم بہت لاچار تھے
اس پر مقدر بھی کچھ ایسا تھا
کسی سے کیا گلہ کرتے
اور ایسے میں
کوئی بھی حد نہیں ہوتی ہے شاید سوگواری کی
بہت کچھ مانگتے تھے اور کیا پایا
کہیں سے بے کلی آئی
کہیں سے درد بن ٹھن کر چلے آئے
ہمیں ملنا بہت تھا
ایک دوجے سے
نہ مل پائے
سو اب بہتر یہی ہے
ہم بھلا ڈالیں
گئے وقتوں کو ایسے یاد کرنے سے
اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا
مجھے بھی چین کی خواہش تو ہے
جانے ملے یا نا
مگر تم زندگی جینا۔۔۔
میں اُس لمحے تو اُس کی ساری باتیں سن چکا
لیکن
اسے کچھ بھی نہ کہہ پایا
اور اب یوں ہے کہ اس کی بے بسی
اک جرمِ ناکردہ کی بن بن کر سزا
آنکھوں سے بدلہ لے رہی ہے
اور مجھے ہر سکھ نے اپنے در سے ٹھوکر مار کے
مجھ سے بھی اتنی دور پھینکا ہے
کہ سکھ تو دور میں خود کو اگر ڈھونڈوں
تو اب ملنا نہیں ممکن۔۔۔۔
زین شکیل