بھولی ہوئی صدا ہے اسے یاد کیجیے
جس جس سے وہ ملا ہے اسے یاد کیجیے
ساغر جسے زمانے کی تلخی نے پی لیا
وہ یاد بن چکا ہے اسے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھا، ہے اشکوں کی انتہا
اک شخص کہہ گیا ہے، اسے یاد کیجیے
مدہوشیوں میں بھی نہیں بھولا اسے خدا
سجدے میں جو پڑا ہے، اسے یاد کیجیے
شیشے میں اس کو مئے کی نہیں جستجو رہی
پھولوں کو پی گیا ہے، اسے یاد کیجیے
اس عہد میں لٹی ہے کمائی غریب کی
سلطاں سے کہہ رہا ہے، اسے یاد کیجیے
آئی ہے موت زین جی ظالم سماج کو
ساغر نہیں مرا ہے، اسے یاد کیجیے
زین شکیل