ایک جلوہ کہاں کہاں کی

ایک جلوہ، کہاں کہاں کی آنکھ
یاد ہے بس فلاں فلاں کی آنکھ
آج بیداریءِ یقیں بتلا
لگ گئی ہے کہاں گماں کی آنکھ
کب سے میں دیکھنے میں ہوں مصروف
بند ہے کب سے آسماں کی آنکھ
قالبِ درد میں کٹے گی شب
سُرخ تھی آج میری جاں کی آنکھ
ہائے آنکھیں چھلک اٹھیں اپنی
کھُل گئی زخم کے نشاں کی آنکھ
تاڑ بیٹھی ہے میٹھی نظروں سے
ہم کو اک ہجرِ بے کراں کی آنکھ
مرگِ حسرت پہ جب ہوا ماتم
تب کھُلی جا کے اس جہاں کی آنکھ
جو بھی صندل! ہمارے بیچ آئے
ایسی کی تیسی اُس کی ماں کی آنکھ
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *