ایک توانا شاعرکی

ایک توانا شاعرکی آمد
میرا ہمیشہ سے نظریہء شعر یہی رہا ہے کہ یہ جذبے کی شدت سے پھوٹنے والی خوشبو ہے جو لفظوں کا پیرہن اوڑھ کے اپنے خدو خال بناتی ہے۔یہ محنت اور مشقت والاکام نہیںبلکہ الہامی عمل ہے۔جو انسان شاعر پیدا ہوتا ہے وہ بغیر سیکھے ہی اعلیٰ تخلیقی مرتبے پر فائز ہونے کی قدرت رکھتا ہے، البتہ دنیاوی علوم اور تربیتِ فن اُس کی تخلیق میں وسعت اور گہرائی پیدا کرتے ہیں۔پھر نظریاتی اساس اور فکری بنیادیں اُسے شاعر سے اعلیٰ شاعر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
زین شکیل ایک ایسا ہی فطری شاعر ہے جو وصفِ شعر اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوا ہے۔ اس کے اندر شاعری کا ایک ایسا دریا ہے جو اپنا راستہ بنانے کے لیے بے تاب اور زمینِ ادب کو سیراب کرنے کے لیے بے قرار ہے۔
اُس کے ہاں شعر ابھی مختلف رنگوں اور آہنگوں کو آزما کر اپنے خاص رنگ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔وہ درد کی دولت سے مالا مال ہے اور احساس کی قوت سے بھرا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی پہلی کتاب ہی میں میرے جیسے لاپرواہ قاری کی توجہ اور پسندیدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس پر طرّہ یہ ہے کہ زین نے آزاد غزل لکھ کر تخلیقیت پسند تحریک سے منسلک ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔آزاد غزل لکھنا بہت مشکل کام ہے جو کم از کم مستری شاعر تو ہر گز نہیں کر سکتے۔زین نے نہایت عمدہ آزاد غزلیں لکھ کر آزاد غزل کے روشن مستقبل کا اعلان کر دیا ہے۔
میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنے آنے والے ہر تخلیقی دورانیے میں زین شکیل اپنے آپ کو منواتا چلا جائے گا۔
فرحتؔ عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *