ایک جنگل بھری اداسی کا
میں نے کل رات خواب میں دیکھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے
میں نے دیکھا تھا درد پتوں پر
جیسے پت جھڑ کا سوگ کرتے ہوں
اور تم یاد آ گئے پھر سے
ایک اندھے مزار کے اندر
ہجر کو دفن کر دیا میں نے
اور تم یاد آ گئے پھر سے
روگ ہنسنے لگے اداسی پر
درد نے تالیاں بجا ڈالیں
اور تم یاد آ گئے پھر سے
اک پرندہ جو ڈار سے بچھڑا
میری چھت پر اداس بیٹھا تھا
اور تم یاد آ گئے پھر سے
اب تو ہر بات بھول جاتا ہوں
اب تو کچھ یاد ہی نہیں رہتا
اور تم یاد آ گئے پھر سے
اب تمہیں یاد ہی نہیں کرنا
آج یہ فیصلہ کیا ہم نے
اور تم یاد آ گئے پھر سے
زین شکیل