آج تک اُس کا جی نہ صاف ہوا
رہ گئی د دل لگی باقی
اب کہاں ع ش ق ہوا
دل نے مانی نہیں ہے لوگوں کی
سب دلیلوں سے انحراف ہوا
ہم نے کارِ ثواب جانا تھا
تیری راہوں میں اعتکاف ہوا
صرف میری زبان مجرم تھی
دل مرا کب ترے خلاف ہوا
اب تو کر لے ذرا سا خوفِ خدا
کب مرا خون تجھے معاف ہوا
یوں مقدس اسے سمجھتا ہے
جیسے دل درد کا غلاف ہوا
زینؔ رسوا ہوئے تھے کچھ ایسے
اُس گلی کا نہ پھر طواف ہوا
زین شکیل