او مرے اجنبی،
یار بیلی مرے ہمنوا،
اے مری آنکھ کے ایک کونے میں ٹھہرے ہوئے اشک!
اشکِ عقیدت میں اے ڈولتے،
چیختے، دھاڑتے اک بھنور،
او مرے بے تکے، سانس لیتے مگر میرے بے جان جیون کے اوتار و سردار
آ پھر ملیں!
پھر ملیں اس طرح کہ نظامِ ملن
اپنی آسودگی کے مراحل سبھی چھوڑ کر دیکھنے لگ پڑے
دو محبت کے مارے ہوؤں کو۔۔
ملیں اس طرح جس طرح ڈار سے دو پرندے بچھڑ کر
علیحدہ علیحدہ مسافت جو صدیوں پہ پھیلی ہوئی ہو
اسے طے کریں اور پھر
آخری سانس لینے کو عمروں پہ طاری سفرختم کرنے پہ
یوں ہی اچانک ملیں ایک ایسی جگہ
جس جگہ جسم کی قید سے پھر رہائی کا وقتِ غضب ناک بختوں سے باہر نکل کر
سواگت میں ان کے کھڑا ہو۔۔
کہ پھر اس سے آگے فقط روح کا مرحلہ ہو شروع
آ ملیں اس طرح
اس طرح اس گھڑی
جس گھڑی میں نا میں نا ہی تو
صرف ہم ہوں
مری آرزوؤں کے اے بادشہ
آ ملیں اس طرح
جس طرح سے زمیں کا کوئی آخری ایک کونہ ملے آسماں سے
یا پھر
آ ملیں اس طرح
جس طرح سے کوئی اور ملتا نہ ہو
اک فنا کی طرف ہے رواں یہ جہاں
اس جہاں کے جھمیلوں سے دامن بچا کے
تُو آ تو سہی
او مرے اجنبی یار جی
آ ملیں۔۔۔
اور ملتے رہیں
اس طرح کہ جدائی کا اپنا مقدر ہمیں دیکھ کر رو پڑے
ایک مدت سے بچھڑے ہوئے سانولا!
آ ملیں ۔۔۔۔ !
زین شکیل