اس کے اندر تھیں وہ

اس کے اندر تھیں وہ سبحانی باتیں، سبحان اللہ!
سائیں کی کرتی تھی، دیوانی، باتیں، سبحان اللہ!
جب دونوں اک ہیں تو پھر یہ میں اور تُو کا جھگڑا کیا؟
پی وحدت کی مئے کر مستانی باتیں، سبحان اللہ!
جو تیرا، تُو اس کا، پھر وہ جو بولے، وہ تُو بولے
ساری سَچی، سُچی، لافانی باتیں، سبحان اللہ!
وہ کہتا ہے میں منصوری، میں تبریزی، میں رومی
اس کے لب اور ایسی وجدانی باتیں! سبحان اللہ!
سائیں کی بس ایک نظر سے روح تلک دھل جاتی ہے
آنکھوں سے کرتا ہے روحانی باتیں، سبحان اللہ!
سبحان اللہ، ان کے آگے پتھر بھی بول اٹھتے ہیں!
کر اٹھی حیرت کی حیرانی، باتیں، سبحان اللہ!
ہائے صدقے، سوہنا، مٹھڑا سانول کرتا رہتا ہے
کیسی میٹھی، پیاری، یزدانی باتیں، سبحان اللہ!
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *