میں تھک گیا ہوں اجالوں میں ڈھونڈ کر اُس کو
اُسے کہو کہ مقدر میں کوئی شام لکھے
تمہارے بعد محبت نے حوصلہ تو دیا
یہ آسرا ہے مگر آسرا ہے تھوڑا سا
اُسے خبر ہی نہیں ہے عقیدتوں کے چراغ
کہاں جلائے کہاں پر بجھائے جاتے ہیں
کبھی جلائے مری شاعری بھرے اوراق
کبھی وہ وصل کے پیغام میرے نام لکھے
کسی کسی سے مری بات کی ہواؤں نے
کسی کسی نے مرا اعتبار بھی نہ کیا
یہ تیری آنکھ میں کس واسطے نمی پھیلی
مجھے خبر تھی جدائی بھی راس آئے گی
فلک کی سرخیاں مجھ کو بتا رہی ہیں کہ وہ
کچھ ایسے رو کے نگاہوں کو لال کرتا ہے
اُسے یہ کس نے سکھائے فنون حیرت کے
وہ اپنے بارے میں مجھ سے سوال کرتا ہے
زین شکیل