مجھے بکھرے بکھرے سے بال یوں بھی پسند ہیں
مجھے ماتمی سے لباس میں نہ ملا کرو
مجھے بے وقوف سمجھ رہا ہے مری طرح
مری بے دھیانی سے فائدہ جو اُٹھا لیا
کسی اُس جہان میں مل کے تجھ سے میں کیا کروں
مرے منتشر سے جہان میں مجھے مل کبھی
مرے خوش گماں تری چاہتوں کے نثار پر
مجھے برملا سی محبتوں پہ یقیں نہیں
مرے زخم ہیں انہیں اپنی ذات سے جوڑ مت
مرے چارہ گر مری حسرتوں سے گریز کر
تری حیرتیں مری چلتی سانس کو دیکھ کر
مرے حوصلے کا طلسم ہے جو اٹوٹ ہے
میں قیام گاہ بنا رہا ترے واسطے
تو یہ کیا ہوا مجھے کیوں بکھیر کے رکھ دیا؟
اسے شاعری کا ادب یہ کس نے سکھا دیا
مری بات بات پہ داد دیتا ہے طنز سے
زین شکیل