تری دید چھین کے لے گئی ہے بصارتیں
تجھے ڈھونڈنا تھا، چراغ ہاتھ سے گر گیا
ترے بعد میرا نصیب ساتھ نہ دے سکا
ترے ساتھ ڈالی کمند میں نے نجوم پر
تو نے اتنی دور بسا لیا ہے نگر کہ اب
تجھے دیکھنے کا غرور خاک میں مل گیا
مرے حوصلے کا قصور ہے کہ جو بچ گیا
مری سانس سانس گواہ ہے کہ میں مر گیا
تجھے اب تلک مری بے بسی پہ گلہ ہے کیوں
مجھے یاد ہے تری کج ادائی کا وقت بھی
تجھے سوچ سوچ کے دن اداسی میں ڈھل گیا
ترے انتظار میں شام حد سے گزر گئی
تو بلند رہتا ہے شوق سے تومیں کیا کروں
مجھے خاک رہنے کا شوق ہے مرا ذوق ہے
زین شکیل