اجنبی کی باتوں میں
درد بھی شکایت بھی
بے پنہ محبت بھی
اور پھر نصیبوں میں
صرف کالی راتیں ہیں
درد کی براتیں ہیں
اجنبی کی باتوں میں
کتنی گہری باتیں ہیں
سن رہا ہوں میں اس کو
کہہ رہا ہے مستی میں
اور اس کی وہ مستی
میرے سارے لفظوں میں
اس طرح سے آن اتری
جیسے دل کے آنگن میں
کوئی میہماں آئے
ذہن کے دریچوں میں
کوئی خوش گماں آئے
اور سارے جذبوں میں
چاہ کی محبت کی
کوئی کہکشاں اترے
کوئی رازداں آئے
اور ایسے عالم میں
اجنبی کی سب باتیں
دیر تک سنی جائیں
آشنائی ملتی ہے
دل کو گھپ اندھیروں سے
پھر رہائی ملتی ہے
روشنائی ملتی ہے
جس طرح خموشی کو
خامشی سے سنتے ہیں
سن رہا ہوں میں ایسے
اجنبی کی باتوں کو۔۔
زین شکیل