جانے کیسے نیند آئے گی میری شب بیداری کو
میرے سنجیدہ شعروں پر ہنستی رہتی ہو لڑکی!
اچھا رستہ ڈھونڈ لیا ہے تم نے وقت گزاری کو
تیری یاد اذیت بن کر شام ڈھلے لوٹ آئی تھی
ہم نے ایسے بین رچائے اس کی خاطر داری کو
ایک پرانا رشتہ تھا جو آسانی سے ٹوٹ گیا
وقت نے بھی پہچان لیا تھا جذبوں کی بیماری کو
اک دوجے کے سکھ کی خاطر دکھ سے رشتہ جوڑ لیا
دنیا والے کیا سمجھیں گے تیری میری یاری کو
دل کے اندر بین ہی جیسے دھک دھک کرتے رہتے ہیں
سکھ بھی روز چلے آتے ہیں دکھ کی ماتم داری کو
آج خیالِ یار پہن کر مست ہمیں رہ لینے دو
کافی وقت بچا رکھا ہے ہم نے دنیا داری کو
ہم دونوں نے باری باری اک اک عہد نبھانا تھا
باری باری بھول گئے ہیں اپنی اپنی باری کو
زین شکیل