بھر دے چلو میں جو ہو شیشے میں باقی ساقی
بھر کے پلواتا نہیں ایک پیالی ساقی
ساری میں مانگتا ہوں دیتا ہے آدھی ساقی
تو نے کیا آتش حل کردہ پلا دی ساقی
بھون ڈالا ہے جگر آگ لگا دی ساقی
پھول مانگوں تو پلاتا ہے برانڈی ساقی
کرتا ہے بزم گزشتہ کی تلافی ساقی
جام جم چاہئے رندوں کو نہ شاہی ساقی
سلطنت ہے ترے کوچے کی گدائی ساقی
جام اوروں کو دیے مجھ کو پیالی ساقی
خود بہکنے لگا مانند شرابی ساقی
کیا کروں پی کے بھلا ایک پیالی ساقی
اس تنک ظرفی کا بندہ نہیں عادی ساقی
کب سے کہتا ہوں بلانوش میں ساقی ساقی
اور پلوا دے جو ہو شیشہ میں باقی ساقی
مرض ہجر میں مے گرچہ مضر ہے لیکن
میں تو پی جاتا ہوں اللہ ہے ساقی ساقی
صبح سے شام تلک ہاتھ سے چھٹتا نہیں جام
چاہئے اپنا تخلص کرے جامی ساقی
مصلحت ہوگی جو محروم رکھا مے سے مجھے
فعل حکمت سے نہیں ہے ترا خالی ساقی
مست کیا جانیں کدھر دیر ہے کعبہ ہے کہاں
عمر ساری تری بھٹی میں گزاری ساقی
مسجد و دیر و کلیسا کی وہ رونق نہ رہی
تو نے بنیاد جو مے خانے کی ڈالی ساقی
دیکھیے صحبت نا جنس نبھے گی کیوں کر
پست ہمت تو طبیعت مری عالی ساقی
فصل گل آ چکی کیا دور سے دہکاتا ہے
مئے گل رنگ سے بھر بھر کے گلابی ساقی
واعظو ووہی کروں گا میں جو فتویٰ دے گا
قبلہ و کعبہ و مرشد مرا ہادی ساقی
شیشہ و جام و سبو ہوں گے ابھی چکناچور
مست بہکے تو بڑی ہوگی خرابی ساقی
کوئی آفت ترے مے خانے پہ آ سکتی ہے
سب دعا گو ہیں یہ جتنے ہیں شرابی ساقی
صرف للٰلہ بھی مے خانے میں جاری کر دے
مقتضی ہو جو تری ہمت عالی ساقی
تنگ ہو کر ترے ہر بار کے دہکانے سے
کوس بیٹھے نہ کوئی رند شرابی ساقی
جو پیے گا نہ شراب آج وہ مجرم ہوگا
کو بہ کو کل سے تو کر دے یہ منادی ساقی
درد بھی مجھ کو پلا دے گا تو بد مستی میں
سب سنا دوں گا میں دیوان زلالی ساقی
برف پلوا کے کلیجہ مرا ٹھنڈا کر دے
آب انگور نے تو آگ لگا دی ساقی
تیرا جی چاہے تو پلوا دے کوئی جام شراب
ہاتھ پھیلانے کا بندہ نہیں عادی ساقی
نفس گرم کی تاثیر نے مے ساغر سے
شعلۂ لفظ کے مانند اڑا دی ساقی
اور تو حسرتیں سب رند کے دل سے نکلیں
جام کوثر کی تمنا رہی باقی ساقی
رند لکھنوی