سوتے ہی رہے آہ نہ بیدار ہوئے ہم
یہ بے خبری دیکھ کہ جب ہم سفر اپنے
کوسوں گئے تب آہ خبردار ہوئے ہم
صیاد ہی سے پوچھو کہ ہم کو نہیں معلوم
کیا جانئے کس طرح گرفتار ہوئے ہم
تھی چشم کہ تو رحم کرے گا کبھو سو ہائے
غصہ کے بھی تیرے نہ سزا وار ہوئے ہم
آتا ہی نہ اس کوچے سے تابوت ہمارا
دفن آخر اسی کے پس دیوار ہوئے ہم
زخم کہن اپنا ہوا ناسور پہ راسخ
مرہم کے کسو سے نہ طلب گار ہوئے ہم
راسخ عظیم آبادی