بزم اس شخص کی ہے تو جسے حاصل ہو جائے
ناخدا اے مری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہو جائے
اس لیے چل کے ہر اک گام پہ رک جاتا ہوں
تا نہ بے کیف غم دورئ منزل ہو جائے
تجھ کو اپنی ہی قسم یہ تو بتا دے مجھ کو
کیا یہ ممکن ہے کبھی تو مجھے حاصل ہو جائے
پھیکا پھیکا ہے مری بزم محبت کا چراغ
تم جو آ جاؤ تو کچھ رونق محفل ہو جائے
ہائے اس وقت دل زار کا عالم کیا ہو
گر محبت ہی محبت کے مقابل ہو جائے
تیری نظریں جو ذرا مجھ پہ کرم فرمائیں
تیری نظروں کی قسم پھر یہی دل دل ہو جائے
ہوش اس کے ہیں یہ جام اس کا ہے تو ہے اس کا
مے کدے میں ترے جو شخص بھی غافل ہو جائے
فتنہ گر شوق سے بہزاد کو کر دے پامال
اس سے تسکین دلی گر تجھے حاصل ہو جائے
بہزاد لکھنوی