میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں

میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں
سب نے دی بانگ محبت کوئی خاموش نہیں

میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں

تو نہیں ہے نہ سہی کیف نہیں غم ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مرا آغوش نہیں

رہ گیا ہوں ترے جلوؤں میں جو میں گم ہوکر
ہائے دنیا یہ سمجھتی ہے مجھے ہوش نہیں

در جاناں پہ مجھے کرنے دے سجدے زاہد
ہاں مجھے ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں

آگئے ہیں ترے جلوے جو مقابل میرے
میں تومیں ہوں مری نظروں کو بھی کچھ ہوش نہیں

چاک دامن کو مرے دیکھ کے حیراں کیوں ہو
ہوش کی بات تو یہ ہے کہ مجھے ہوش نہیں

جان صدہوش تھی شاید کہ مری بےہوشی
ہوش آیا ہے تو کہتا ہوں مجھے ہوش نہیں

ہائے بہزاد یہ عالم نہ سمجھ میں آیا
اب مجھے ہوش جو آیا تو انہیں ہوش نہیں​

بہزاد لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *