تو جان تماشا ہے میں محو تماشا ہوں
تو باعث ہستی ہے میں حاصل ہستی ہوں
تو خالق الفت ہے اور میں ترا بندہ ہوں
جب تک نہ ملا تھا تو اے فتنۂ دو عالم
جب درد سے غافل تھا اب درد کی دنیا ہوں
کچھ فرق نہیں تجھ میں اور مجھ میں کوئی لیکن
تو اور کسی کا ہے بے درد میں تیرا ہوں
مدت ہوئی کھو بیٹھا سرمایۂ تسکیں میں
اب تو تری فرقت میں دن رات تڑپتا ہوں
ارمان نہیں کوئی گو دل میں مرے لیکن
اللہ ری مجبوری مجبور تمنا ہوں
بہزاد حزیں مجھ پر اک کیف سا طاری ہے
اب یہ مرا عالم ہے ہنستا ہوں نہ روتا ہوں
بہزاد لکھنوی