اے ابر تر آ کر ٹک ایدھر بھی برس ظالم
صیاد بہار اب کے سب لوٹوں گا کیا میں ہی
ٹک باغ تلک لے چل میرا بھی قفس ظالم
کس طور کوئی تجھ سے مقصود کرے حاصل
نے رحم ترے جی میں نے دل میں ترس ظالم
کیوں سر چڑھے ہے ناحق ہم بخت سیاہوں کے
مت پیچ میں پگڑی کے بالوں کو گھڑس ظالم
جوں ابر میں روتا تھا جوں برق تو ہنستا تھا
صحبت نہ رہی یوں ہی ایک آدھ برس ظالم
کیا کھولے ہوئے محمل یاں گرم حکایت ہے
چل راہ میں کچھ کہتا مانند جرس ظالم
مطلق نہیں گنجائش اب حوصلے میں اپنے
آزار کوئی کھینچے یوں کب تئیں بس ظالم
سررشتۂ ہستی کو ہم دے چکے ہاتھوں سے
کچھ ٹوٹے ہی جاتے ہیں اب تار نفس ظالم
تا چند رہے گا تو یوں داغ غم اس مہ کا
چھاتی تو گئی تیری اے میرؔ بھلس ظالم