اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ

اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ
آب اس کے پوست میں ہے جوں میوۂ رسیدہ
آنکھیں ملا کبھو تو کب تک کیا کروں میں
دنبالہ گردی تیری اے آہوئے رمیدہ
پانی بھر آیا منھ میں دیکھے جنھوں کے یارب
وے کس مزے کے ہوں گے لب ہائے نامکیدہ
سائے کو اس پری کے لگتا نہ تھا چمن میں
مغرور کاہے پر ہے شمشاد قد کشیدہ
آنکھیں ہی بچھ رہی ہیں اہل نظر کی یکسر
چلتے ہوئے زمیں پر رکھ پاؤں دیدہ دیدہ
چل سیر کرنے تو بھی تا صبح آنکھیں کھولیں
منھ پر ترے چمن میں گل ہائے نو دمیدہ
محراب میں رہو نہ سجدہ کیا کرو نہ
بے وقت کیا ہے طاعت قد اب ہوا خمیدہ
پروانہ گرد پھر کر جل بھی بجھا ولیکن
خاموش رات کو تھی شمع زباں بریدہ
دیکھا مجھے شب گل بلبل نے جو چمن میں
بولا کی میرے منھ پر کیا کیا دہن دریدہ
قلب و کبد تو دونوں تیروں سے چھن رہے ہیں
وہ اس ستم کشی پر ہم سے رہے کبیدہ
اشعار میرؔ سب نے چن چن کے لکھ لیے ہیں
رکھیں گے یاد ہم بھی کچھ بیتیں چیدہ چیدہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *