اب کے سفر کو ہم سے وہ مہ جدا گیا ہے

اب کے سفر کو ہم سے وہ مہ جدا گیا ہے
رخصت میں لگ گلے سے چھاتی جلا گیا ہے
فرہاد و قیس گذرے اب شور ہے ہمارا
ہر کوئی اپنی نوبت دو دن بجا گیا ہے
ضعف دماغ سے میں بھر کر نظر نہ دیکھا
کیا دیر میں پلک سے میری اٹھا گیا ہے
بے جا ہوئے بہت دل رفتار دیکھ اس کی
عزلت گزینوں سے بھی کم ہی رہا گیا ہے
رسوا خراب و غم کش دل باختہ محبت
عاشق کو تیرے غم میں کیا کیا کہا گیا ہے
اے میرؔ شعر کہنا کیا ہے کمال انساں
یہ بھی خیال سا کچھ خاطر میں آ گیا ہے
شاعر نہیں جو دیکھا تو تو ہے کوئی ساحر
دو چار شعر پڑھ کر سب کو رجھا گیا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *