پیشانی پہ دے قشقہ زنار پہن بیٹھے
آزردہ دل الفت ہم چپکے ہی بہتر ہیں
سب رو اٹھے گی مجلس جو کر کے سخن بیٹھے
عریان پھریں کب تک اے کاش کہیں آ کر
تہ گرد بیاباں کی بالائے بدن بیٹھے
پیکان خدنگ اس کا یوں سینے کے اودھر ہے
جوں مار سیہ کوئی کاڑھے ہوئے پھن بیٹھے
جز خط کے خیال اس کے کچھ کام نہیں ہم کو
سبزی پیے ہم اکثر رہتے ہیں مگن بیٹھے
شمشیر ستم اس کی اب گوکہ چلے ہر دم
شوریدہ سر اپنے سے ہم باندھ کفن بیٹھے
بس ہو تو ادھر اودھر یوں پھرنے نہ دیں تجھ کو
ناچار ترے ہم یہ دیکھیں ہیں چلن بیٹھے