بس اے تب فراق کہ گرمی میں مر گئے
منزل نہ کر جہاں کو کہ ہم نے سفر سے آہ
جن کا کیا سراغ سنا وے گذر گئے
مشت نمک سے بھی تو کبھو یاد کر ہمیں
اب داغ کھاتے کھاتے فلک جی تو بھر گئے
ناصح نہ روویں کیونکے محبت کے جی کو ہم
اے خانماں خراب ہمارے تو گھر گئے
تلوار آپ کھینچیے حاضر ہے یاں بھی سر
بس عاشقی کی ہم نے جو مرنے سے ڈر گئے
کر دیں گے آسمان و زمیں ایک حشر کو
اس معرکے میں یار جی ہم بھی اگر گئے
یہ راہ و رسم دل شدگاں گفتنی نہیں
جانے دے میرؔ صاحب و قبلہ جدھر گئے
روز وداع اس کی گلی تک تھے ہم بھی ساتھ
جب دردمند ہم کو وے معلوم کر گئے
کر یک نگاہ یاس کی ٹپ دے سے رو دیا
پھر ہم ادھر کو آئے میاں وے ادھر گئے